EN हिंदी
نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں | شیح شیری
nazar us chashm pe hai jam liye baiTha hun

غزل

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں

آرزو لکھنوی

;

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
ہے نہ پینے کا یہ مطلب کہ پیے بیٹھا ہوں

رخنہ اندازئ اندوہ سے غافل نہیں میں
ہے جگر چاک تو کیا ہونٹ سیے بیٹھا ہوں

کیا کروں دل کو جو لینے نہیں دیتا ہے قرار
جو مقدر نے دیا ہے وہ لیے بیٹھا ہوں

التفات اے نگہ ہوشربا اب کیوں ہے
پاس جو کچھ تھا وہ پہلے سے دیے بیٹھا ہوں

دل پر کیف سلامت کہ اکیلے میں بھی
ایک بوتل سے بغل گرم کیے بیٹھا ہوں

آرزوؔ جلتے ہوئے دل کے شرارے ہیں یہ اشک
آگ پانی کے کٹوروں میں لیے بیٹھا ہوں