نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
ہے نہ پینے کا یہ مطلب کہ پیے بیٹھا ہوں
رخنہ اندازئ اندوہ سے غافل نہیں میں
ہے جگر چاک تو کیا ہونٹ سیے بیٹھا ہوں
کیا کروں دل کو جو لینے نہیں دیتا ہے قرار
جو مقدر نے دیا ہے وہ لیے بیٹھا ہوں
التفات اے نگہ ہوشربا اب کیوں ہے
پاس جو کچھ تھا وہ پہلے سے دیے بیٹھا ہوں
دل پر کیف سلامت کہ اکیلے میں بھی
ایک بوتل سے بغل گرم کیے بیٹھا ہوں
آرزوؔ جلتے ہوئے دل کے شرارے ہیں یہ اشک
آگ پانی کے کٹوروں میں لیے بیٹھا ہوں
غزل
نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
آرزو لکھنوی