نظر سے چھپ گئے دل سے جدا تو ہونا تھا
اس اہتمام سے تم کو خفا تو ہونا تھا
وفا خود اپنے مقابل ہوئی محبت میں
ترے ستم کی کوئی انتہا تو ہونا تھا
کہاں پہنچ کے رکے آپ بے وفائی سے
لحاظ میری وفا کا ذرا تو ہونا تھا
سنور کے آئنہ دیکھا تو ہنس کے فرمایا
وہ سامنے ہیں مگر سامنا تو ہونا تھا
اگر ادھر سے وہ گزرے ہیں بے خیالی میں
قریب دل کوئی آواز پا تو ہونا تھا
وہ لے گئے ہیں اگر بوئے گل کو ساتھ شجیعؔ
کم از کم آج چمن میں صبا تو ہونا تھا
غزل
نظر سے چھپ گئے دل سے جدا تو ہونا تھا
نواب معظم جاہ شجیع