EN हिंदी
نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے | شیح شیری
nazar-nawaz nazaron ki yaad aati hai

غزل

نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے

شوکت پردیسی

;

نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے
شکستہ دل کے سہاروں کی یاد آتی ہے

کبھی نگاہ محبت نے جس کو چھیڑا تھا
اب ان رباب کے تاروں کی یاد آتی ہے

نگاہ پڑتی ہے جب بھی کسی شگوفے پر
تمہارے ساتھ بہاروں کی یاد آتی ہے

جو مل کے چھوٹ گئے زندگی کی راہوں میں
اب ان حسین سہاروں کی یاد آتی ہے

مچلتی آرزؤں کے جلو میں اے شوکتؔ
سلگتی راہ گزاروں کی یاد آتی ہے