نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے
شکستہ دل کے سہاروں کی یاد آتی ہے
کبھی نگاہ محبت نے جس کو چھیڑا تھا
اب ان رباب کے تاروں کی یاد آتی ہے
نگاہ پڑتی ہے جب بھی کسی شگوفے پر
تمہارے ساتھ بہاروں کی یاد آتی ہے
جو مل کے چھوٹ گئے زندگی کی راہوں میں
اب ان حسین سہاروں کی یاد آتی ہے
مچلتی آرزؤں کے جلو میں اے شوکتؔ
سلگتی راہ گزاروں کی یاد آتی ہے
غزل
نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے
شوکت پردیسی