نظر نواز ہے حسن خجستہ پے اب بھی
کھٹک رہی ہے مگر دل میں کوئی شے اب بھی
بقید توبہ وہی احترام ہے اب بھی
مری نظر میں ہے خورشید جام مے اب بھی
میں غرق بے خودیٔ شوق ہی سہی لیکن
تمہیں پکار لوں اتنا تو ہوش ہے اب بھی
یہ ظرف ہے مرا اے راہ بر نما رہزن
کہ چل رہا ہوں ترے ساتھ پے بہ پے اب بھی
غلط نہیں کہ ہو تم جادۂ آزمائے حرم
نہ ہوگی راہ وفا شیخ تم سے طے اب بھی
وہ سوز و ساز غم عشق اب کہاں لیکن
نکلتی ہے مرے نغموں سے غم کی لے اب بھی
کبھی ادھر سے کوئی نے نواز گزرا تھا
فضا میں گونج رہی ہے صدائے نے اب بھی
غزل
نظر نواز ہے حسن خجستہ پے اب بھی
مختار ہاشمی