نظر ملتے ہی برسے اشک خوں کیوں دیدۂ تر سے
رگیں قلب و جگر کی چھیڑ دیں کیا تم نے نشتر سے
یقیناً کچھ تعلق ہے ترے در کو مرے سر سے
وگرنہ لوح پیشانی کا کیا رشتہ ہے پتھر سے
مرے پہلو میں ہے آباد ارمانوں کی ایک دنیا
ہزاروں میتیں اٹھیں گی مرے ساتھ بستر سے
وہ اپنی زلف بکھرا کر تصور ہی میں آ جاتے
یہ سایہ بھی اٹھا اب تو مری امید کے سر سے
وفا نے حسرت کشتہ کا اس کو خوں بہا سمجھا
گرا جو اشک دامن پر لہو کا دیدۂ تر سے
سناؤں تم کو وہ لفظوں میں حال خوبی قسمت
مرے دامن پر برسے بھی تو اشکوں کے گہر برسے
مری ہستی مٹانے والے شاید تو نہیں واقف
کہ مٹ کر بھی بنے گی ایک دنیا میرے پیکر سے
خیال آبلہ پائی وقارؔ اک عذر بے جا تھا
نہ گھر تھا دور منزل سے نہ منزل دور تھی گھر سے

غزل
نظر ملتے ہی برسے اشک خوں کیوں دیدۂ تر سے
وقار بجنوری