EN हिंदी
نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں | شیح شیری
nazar mein rang samae hue usi ke hain

غزل

نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں

سعید قیس

;

نظر میں رنگ سمائے ہوئے اسی کے ہیں
یہ سارے پھول اگائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی کے لطف سے بستی نہال ہے ساری
تمام پیڑ لگائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی کے حسن کی پرچھائیاں ہیں پتوں پر
زمیں نے بوجھ اٹھائے ہوئے اسی کے ہیں

وہ جس کے قرب سے حرف وصال ہے روشن
مرے چراغ جلائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ بارشیں بھی اسی کی ہیں میری آنکھوں میں
یہ ابر ذہن پہ چھائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ آگہی جو ہمیں یوں ہمارے حال کی ہے
یہ سب کمال سکھائے ہوئے اسی کے ہیں

یہ توڑ پھوڑ غزل میں اسی کے نام کی ہے
یہ سارے شور مچائے ہوئے اسی کے ہیں

ہمارے لہجے میں جو اک مٹھاس ہے باقی
ہمیں یہ زہر پلائے ہوئے اسی کے ہیں

بجز جمال ہمیں اور کیا دکھائی دے
نظر پہ پہرے بٹھائے ہوئے اسی کے ہیں

اسی جبیں سے نکلتا ہے قیسؔ چاند مرا
یہ آسمان سجائے ہوئے اسی کے ہیں