EN हिंदी
نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے | شیح شیری
nazar mein kaisa manzar bas gaya hai

غزل

نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے

زمان کنجاہی

;

نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے
بیاباں میں سمندر بس گیا ہے

چمک دیوار و در کی کہہ رہی ہے
کوئی اس گھر کے اندر بس گیا ہے

ٹھکانہ مل گیا ہے اس کو آخر
وہ میرے دل میں آ کر بس گیا ہے

مہک اٹھا تصور کا جہاں بھی
کوئی خوشبو کا پیکر بس گیا ہے

جو تنہائی کے صحرا کا مکیں تھا
زماںؔ آج اس کا بھی گھر بس گیا ہے