نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے
بیاباں میں سمندر بس گیا ہے
چمک دیوار و در کی کہہ رہی ہے
کوئی اس گھر کے اندر بس گیا ہے
ٹھکانہ مل گیا ہے اس کو آخر
وہ میرے دل میں آ کر بس گیا ہے
مہک اٹھا تصور کا جہاں بھی
کوئی خوشبو کا پیکر بس گیا ہے
جو تنہائی کے صحرا کا مکیں تھا
زماںؔ آج اس کا بھی گھر بس گیا ہے
غزل
نظر میں کیسا منظر بس گیا ہے
زمان کنجاہی