EN हिंदी
نظر کو وسعتیں دے بجلیوں سے آشنا کر دے | شیح شیری
nazar ko wusaten de bijliyon se aashna kar de

غزل

نظر کو وسعتیں دے بجلیوں سے آشنا کر دے

ظہیر احمد تاج

;

نظر کو وسعتیں دے بجلیوں سے آشنا کر دے
فسانہ طور کا تجدید اے جذب رسا کر دے

مٹا دے ذوق محویت سے خلوت اور جلوت کو
اگر تو کر سکے دل کو حریم دل ربا کر دے

حجابات نظر کب تک کہاں تک دل کی محرومی
مدد اے شوق نظروں کو قیامت آزما کر دے

بنا ہے مے کدہ اہل ہوس کی بزم اے ساقی
ترا ترک تعلق دیکھنا جانے نہ کیا کر دے

بہ مجبوری بہ آخر یہ مجھے کہنا ہی پڑتا ہے
بہت پر فن ہوئی دنیا نگاہوں کو خفا کر دے

ترے نغمے سرور و کیف میں اے تاجؔ ڈھلتے ہیں
حدیث حسن و الفت کو دلوں کا مدعا کر دے