نظر کو وسعتیں دے بجلیوں سے آشنا کر دے
فسانہ طور کا تجدید اے جذب رسا کر دے
مٹا دے ذوق محویت سے خلوت اور جلوت کو
اگر تو کر سکے دل کو حریم دل ربا کر دے
حجابات نظر کب تک کہاں تک دل کی محرومی
مدد اے شوق نظروں کو قیامت آزما کر دے
بنا ہے مے کدہ اہل ہوس کی بزم اے ساقی
ترا ترک تعلق دیکھنا جانے نہ کیا کر دے
بہ مجبوری بہ آخر یہ مجھے کہنا ہی پڑتا ہے
بہت پر فن ہوئی دنیا نگاہوں کو خفا کر دے
ترے نغمے سرور و کیف میں اے تاجؔ ڈھلتے ہیں
حدیث حسن و الفت کو دلوں کا مدعا کر دے
غزل
نظر کو وسعتیں دے بجلیوں سے آشنا کر دے
ظہیر احمد تاج