نظر کو حامل برق جمال کر نہ سکا
غرور حسن کو میں پائمال کر نہ سکا
وہ آنے والے زمانے کو کیا بنائے گا
جو آج تک مرے ماضی کو حال کر نہ سکا
شکست دل کا مرے راز آپ کیا جانیں
ملال ہی نہ ہوا یا ملال کر نہ سکا
مجھے لطیف ستم سے کرم کے پردوں میں
کچھ اس نے ایسے مٹایا ملال کر نہ سکا
ہجوم غم رہا نخشبؔ مگر میں اپنے لیے
شراب و شاہد و نغمہ حلال کر نہ سکا
غزل
نظر کو حامل برق جمال کر نہ سکا
نخشب جارچوی