EN हिंदी
نظر کو حامل برق جمال کر نہ سکا | شیح شیری
nazar ko hamil-e-barq-e-jamal kar na saka

غزل

نظر کو حامل برق جمال کر نہ سکا

نخشب جارچوی

;

نظر کو حامل برق جمال کر نہ سکا
غرور حسن کو میں پائمال کر نہ سکا

وہ آنے والے زمانے کو کیا بنائے گا
جو آج تک مرے ماضی کو حال کر نہ سکا

شکست دل کا مرے راز آپ کیا جانیں
ملال ہی نہ ہوا یا ملال کر نہ سکا

مجھے لطیف ستم سے کرم کے پردوں میں
کچھ اس نے ایسے مٹایا ملال کر نہ سکا

ہجوم غم رہا نخشبؔ مگر میں اپنے لیے
شراب و شاہد و نغمہ حلال کر نہ سکا