نظر کو بھائے جو منظر پہن کے نکلا ہے
دھنک وہ اپنے بدن پر پہن کے نکلا ہے
میں آئنہ ہوں مگر پتھروں سے کہہ دینا
اک آئنہ ہے جو پتھر پہن کے نکلا ہے
وہ اپنی آنکھ کی عریانیت چھپانے کو
حیا کی آنکھ پہ چادر پہن کے نکلا ہے
چھپا کے رکھتا تو تو بھی ہوس سے بچ جاتا
مگر تو حسن کا زیور پہن کے نکلا ہے
زمانہ اس کو کبھی بھی ڈرا نہیں سکتا
خدا کا خوف جو دل پر پہن کے نکلا ہے
کلاہ سر پہ نہیں منصف زمانہ کے
وہ اپنے سر پہ مرا سر پہن کے نکلا ہے
غزل
نظر کو بھائے جو منظر پہن کے نکلا ہے
محسن آفتاب کیلاپوری