EN हिंदी
نظر جو آیا اس پہ اعتبار کر لیا گیا | شیح شیری
nazar jo aaya us pe eatibar kar liya gaya

غزل

نظر جو آیا اس پہ اعتبار کر لیا گیا

عفت عباس

;

نظر جو آیا اس پہ اعتبار کر لیا گیا
حقیقتوں کے درک سے فرار کر لیا گیا

قیود آگہی سے جب سہم گئیں جبلتیں
نظر کے گرد رنگ کا حصار کر لیا گیا

شہود کی جو سطح پہ انانیت کا شور اٹھا
تو دامن خودی کو تار تار کر لیا گیا

گماں ہوا کہ راستہ ابھی مری نظر میں ہے
شریر شتر نفس بے مہار کر لیا گیا

جو لوگ دل کی الجھنوں میں غرق تھے خموش تھے
انہیں بھی اہل جذب میں شمار کر لیا گیا

رہ طلب کی سختیوں کے شکوے لب بہ لب ہوئے
سرور جد و جہد کو خمار کر لیا گیا

چلے کبھی کبھی ادھر سے عظمتوں کے قافلے
وفا کا عزم جن سے پائیدار کر لیا گیا

وہ عشق تھا کہ بندگی ضرورتیں کی آگہی
بس ایک ربط تھا جو استوار کر لیا گیا

ورق ورق رموز آگہی کے تھے لکھے ہوئے
کتب کو با رپشت بر حمار کر لیا گیا

اصول اور فروع سب شہابؔ ایک طرف ہوئے
عجب نظام زیست اختیار کر لیا گیا