نظر جب سے کسی کی مہرباں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا گلستاں در گلستاں معلوم ہوتی ہے
سزا ہر جرم کی منظور ہے مجھ کو مگر یہ کیا
کہ ہر لغزش پہ فطرت ہم زباں معلوم ہوتی ہے
وہاں اپنا سفینہ لے چلی ہوں میں ڈبونے کو
جہاں ہر موج بحر بیکراں معلوم ہوتی ہے
گئے وہ دن کی لطف آتا تھا کانٹوں سے الجھنے میں
ہنسی بھی اب تو پھولوں کی گراں معلوم ہوتی ہے
یہ کس جنت میں لے آیا ہے پیمان وفا دل کو
کہ ہر صورت یہاں آرام جاں معلوم ہوتی ہے
جو گزری ہے کسی کے ساتھ اس عمر دو روزہ میں
وہ ساعت ناز عمر جاوداں معلوم ہوتی ہے
غزل
نظر جب سے کسی کی مہرباں معلوم ہوتی ہے
نازنین بیگم ناز