EN हिंदी
نظر بھی آیا تو خود سے چھپا لیا میں نے | شیح شیری
nazar bhi aaya to KHud se chhupa liya maine

غزل

نظر بھی آیا تو خود سے چھپا لیا میں نے

سرفراز نواز

;

نظر بھی آیا تو خود سے چھپا لیا میں نے
یہ کون ہے جسے اپنا بنا لیا میں نے

تمہارا لمس چھپا ہے بدن کی پرتوں میں
چھوا جو خود کو لگا تم کو پا لیا میں نے

اسی کے سامنے جو رحمتوں کا مالک ہے
شکایتوں کو دعا میں ملا لیا میں نے

نہ کچھ دوا کی ضرورت نہ چارہ گر کی تلاش
یہ روگ کون سا دل کو لگا لیا میں نے

جھلس گیا ہوں جلا ہوں دھواں دھواں ہو کر
اندھیری رات سے تم کو بچا لیا میں نے

وہ ملنے جلنے کے موسم گزر گئے کب کے
ملا جو کوئی گلے سے لگا لیا میں نے

تمہارے سچ کی حفاظت میں یوں ہوا اکثر
کہ اپنے آپ کو جھوٹا بنا لیا میں نے