نظر آیا نہ کوئی بھی ادھر دیکھا ادھر دیکھا
وہاں پہنچے تو اپنے آپ کو بھی بے نظر دیکھا
یہ دھوکا تھا نظر کا یا فرشتہ سبز چادر میں
کہیں صحرا میں لہراتا ہوا اس نے شجر دیکھا
کہیں پہ جسم اور پہچان دونوں راہ میں چھوڑے
خود اپنے آپ کو ہم نے نہ اپنا ہم سفر دیکھا
بنے کیا آشیاں تازہ ہوا نہ پیڑ کے جھرمٹ
کسی اڑتے پرندے نے نئے یگ کا نگر دیکھا
لگے تھے آئنہ چاروں طرف شاید محبت کے
نظر کے سامنے تھا بس وہی ہم نے جدھر دیکھا
زمیں کی سیج پر سائے کی چادر اوڑھ کر سویا
کسی بنجارے سیلانی نے رستے میں ہی گھر دیکھا
کبھی ہم ڈوب جائیں گے اسی میں سوچتے ہر دم
ہمارے دل نے جب دیکھا حبابوں کا بھنور دیکھا
غزل
نظر آیا نہ کوئی بھی ادھر دیکھا ادھر دیکھا
دیپک قمر