نزع میں پیار سے کیوں پوچھتے ہو تم مجھ کو
دم لبوں پر ہے نہیں تاب تکلم مجھ کو
قتل غصہ میں کرو پھیر کے منہ تم مجھ کو
دیکھنا دیکھ نہ لے چشم ترحم مجھ کو
ابھی بیعت میں کروں دست سبو پر ساقی
لے چلیں ہاتھ پکڑ کر جو سوئے خم مجھ کو
تب شب وصل ترا شکر ادا ہو یا رب
بہر تسبیح ملیں دانۂ انجم مجھ کو
ظرف عالی ہے مرا عرش بریں پر ہے دماغ
جام خورشید کا گردوں کا ملے خم مجھ کو

غزل
نزع میں پیار سے کیوں پوچھتے ہو تم مجھ کو
وسیم خیر آبادی