نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے
ہوا کو مٹھیوں میں آگ کو پانی میں رکھا ہے
نہ جانے کیا سمجھ کر چکھ لیا تھا دانۂ گندم
ابھی اک بھول نے اب تک پشیمانی میں رکھا ہے
وطن سے دور ہوں میں رزق کی خاطر مرے مولا
مگر بستی کو تیری ہی نگہبانی میں رکھا ہے
سفر میں بھی ڈرامائی عناصر کام آئے ہیں
زباں کی چاشنی سے سب کو حیرانی میں رکھا ہے
غزل کہنے کا موسم قاسمیؔ اب ہو گیا رخصت
سکون قلب تو اس کی ثنا خوانی میں رکھا ہے
مہذب شہر کے لمبے سفر سے لوٹ آیا ہوں
سلیقہ زندگی کا گھر کی ویرانی میں رکھا ہے
غزل
نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے
شمیم قاسمی