EN हिंदी
نوائے حق پہ ہوں قاتل کا ڈر عزیز نہیں | شیح شیری
nawa-e-haq pe hun qatil ka Dar aziz nahin

غزل

نوائے حق پہ ہوں قاتل کا ڈر عزیز نہیں

ظفر کلیم

;

نوائے حق پہ ہوں قاتل کا ڈر عزیز نہیں
پڑے جہاد تو اپنا بھی سر عزیز نہیں

پڑا ہوا ہوں سر رہ گزر تو رہنے دے
تری گلی سے زیادہ تو گھر عزیز نہیں

فقیر شہر کو لعل و گہر سے کیا نسبت
مرے عزیز مجھے مال و زر عزیز نہیں

پھلوں کو لوٹ کے لے جاؤ پیڑ مت کاٹو
شجر عزیز ہے مجھ کو ثمر عزیز نہیں

وہ لوگ ہم سے الگ اپنا راستہ کر لیں
کہ جن کو شہر وفا کا سفر عزیز نہیں

بہت عزیز ہیں مجھ کو محبتیں لیکن
محبتوں میں سیاست ظفرؔ عزیز نہیں