EN हिंदी
نوائے دل نے کرشمے دکھائے ہیں کیا کیا | شیح شیری
nawa-e-dil ne karishme dikhae hain kya kya

غزل

نوائے دل نے کرشمے دکھائے ہیں کیا کیا

راج کمار قیس

;

نوائے دل نے کرشمے دکھائے ہیں کیا کیا
مری اذاں نے نمازی جگائے ہیں کیا کیا

جمال یار تری آب و تاب کیا کہئے
نظر نظر پہ قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

ادائے ناز کو انداز دلبری سمجھے
فریب اہل محبت نے کھائے ہیں کیا کیا

زمیں زمیں نہ رہی اور فلک فلک نہ رہا
مقام و وقت بھی گردش میں آئے ہیں کیا کیا

وہ تیری شوخ نگاہی وہ تیری خندہ لبی
دل غریب پہ چرکے لگائے ہیں کیا کیا

کبھی خلوص محبت کبھی گریز و فرار
بنا بنا کے مقدر مٹائے ہیں کیا کیا

کبھی تو دیکھ کہ میری تباہ حالی پر
حیات و موت نے آنسو بہائے ہیں کیا کیا

ہے آج خون تمنا تو کل امید کی موت
دل حزیں نے جنازے اٹھائے ہیں کیا کیا

نگاہ قیسؔ تری دسترس کو مان گئے
کہاں کہاں سے مضامیں چرائے ہیں کیا کیا