نوجوانی میں عجب دل کی لگی ہوتی ہے
غم کے سہنے میں بھی انساں کو خوشی ہوتی ہے
پیار جب پیار کی منزل پہ پہنچ جاتا ہے
ہنستے چہروں کے بھی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے
پاس رہتے ہیں تو دل محو طرب رہتا ہے
دور ہوتے ہیں تو محسوس کمی ہوتی ہے
جب بھی ہوتا ہے گماں ان سے کہیں ملنے کا
دل کے ارمانوں میں اک دھوم مچی ہوتی ہے
نامہ بر سے نہ کہوں بات تو پھر فائدہ کیا
اور کہہ دوں تو تری پردہ دری ہوتی ہے
جب بھی تو میرے تصور میں مکیں ہوتا ہے
دل کی دنیا ترے جلووں سے سجی ہوتی ہے
کج ادائی ہو ستم ہو کہ ہوں الطاف و کرم
اپنے محبوب کی ہر چیز بھلی ہوتی ہے
کیا بتاؤں میں ترے جسم کی رنگینی کو
جیسے ساغر میں مئے ناب ڈھلی ہوتی ہے
ان کے آنے سے سکوں آنے لگا ہے افضلؔ
آج کچھ درد میں محسوس کمی ہوتی ہے
غزل
نوجوانی میں عجب دل کی لگی ہوتی ہے
افضل پیشاوری