EN हिंदी
نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا | شیح شیری
nauhagaron mein dida-e-tar bhi usi ka tha

غزل

نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا

احمد فراز

;

نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا
مجھ پر یہ ظلم بار دگر بھی اسی کا تھا

دیکھا مجھے تو ترک تعلق کے باوجود
وہ مسکرا دیا یہ ہنر بھی اسی کا تھا

آنکھیں کشاد و بست سے بدنام ہو گئیں
سورج اسی کا خواب سحر بھی اسی کا تھا

خنجر در آستیں ہی ملا جب کبھی ملا
وہ تیغ کھینچتا تو یہ سر بھی اسی کا تھا

نشتر چبھے ہوئے تھے رگ جاں کے آس پاس
وہ چارہ گر تھا اور مجھے ڈر بھی اسی کا تھا

محفل میں کل فرازؔ ہی شاید تھا لب کشا
مقتل میں آج کاسۂ سر بھی اسی کا تھا