نو بہ نو یہ جلوہ زائی یہ جمال رنگ رنگ
مہلت دل ایک لحظہ دامن نظارہ تنگ
ہے کہاں وہ آگ جو روشن رکھے دل کا الاؤ
برق جولاں محض چشمک شعلۂ گل محض رنگ
اے جنوں تیر ملامت کا کوئی عنواں نکال
کیسا چپکا ہے بدن پر فرقۂ ناموس و ننگ
اب یہ اس کا عزم طے کر لے جو راہ آرزو
ہر قدم دام تحیر ہر قدم دیوار سنگ
آج دیکھا سب نے قاتل کی تہی دستی کا حال
سیل خون عاشقاں میں بہہ گئے شمشیر و سنگ
غزل
نو بہ نو یہ جلوہ زائی یہ جمال رنگ رنگ
حمید نسیم