نصیحت سے میری یہ سو کوس بھاگے
تلنگوں کی حق میں جیسے بھوتیا ہے
میں بیٹھوں زمیں پر یہ بیٹھے سماں پر
کجا تخت شاہی کجا بوریا ہے
کریں جا بہ جا لوگ پر کا کبوتر
ہر اک بات کا مچ رہا توتیا ہے
زمانے کا یہ حال اور دل کا یہ حال
کہو کس طرح رہتی شرم اور حیا ہے
بھنور بیچ غم کے میں ڈالوں اور اچھلوں
یہ کہتا ہے مجھ سے کہ تو مرجیا ہے
میں سو سو دفعہ تیرا پھاڑا گریباں
بتا تو نے کس سے واسطے پھر سیا ہے
تو ہے موت کا ڈھیر مت بول مجھ سے
امر ہوں میں نے آب آب حیواں پیا ہے
میرے ثانی نئی ہے کوئی اب جہاں میں
فلک کے کنگوروں کو میں نے چھیا ہے
خدا ہوں سدا عاشقی پر میں اسی کی
وہ جو قیس صحرا میں ایک ہو گیا ہے
خدا کی طرف جن نے دل کو لگایا
ہوا فض اس کے سے وہ انبیا ہے
مرے جی میں آوے گی سو ہی کروں گا
میں مختار ہوں میرا کرم خوردہ ہے
سنیں دل کے منہ سے میں جب ایسی باتیں
خدا شاہد ہے میں نے رو رو دیا ہے
پھر آخر ہو لاچار میں ہار بیٹھا
یہ لڑنے کے تئیں میر خاں ٹھوکیا ہے
کہوں کیا کیا یارو میں دل کے تماشے
یہ تو سوانگ لانے کو بہروپیا ہے
نہ بک آگے اب نینؔ خاموش ہو را
یہ دل ہے تیرا یار لنگوٹیا ہے
غزل
نصیحت سے میری یہ سو کوس بھاگے
نین سکھ