نصیب اپنا ذرا آزما کے دیکھیں گے
چراغ شوق ہوا میں جلا کے دیکھیں گے
مچل مچل کے کہاں تک یہ برق گرتی ہے
چمن میں پھر سے نشیمن بنا کے دیکھیں گے
فلک کو ضد ہے کہ ہم کو رلا کے دیکھے گا
ہمیں یہ ضد ہے اسے مسکرا کے دیکھیں گے
جھکائے بیٹھے ہیں اب ان کے در پہ سر اپنا
کبھی تو وہ ہمیں آنکھیں اٹھا کے دیکھیں گے
ملے سکوں دل مضطر کو وہ جگہ ہے کہاں
جہان غم سے بھی ہم دور جا کے دیکھیں گے
وہ بچ کے جائیں گے کب تک نظر سے اے آفتؔ
ہم اپنے دل میں اب ان کو بسا کے دیکھیں گے

غزل
نصیب اپنا ذرا آزما کے دیکھیں گے
للن چودھری