EN हिंदी
نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں | شیح شیری
nasib aazmane ke din aa rahe hain

غزل

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

فیض احمد فیض

;

نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں

جو دل سے کہا ہے جو دل سے سنا ہے
سب ان کو سنانے کے دن آ رہے ہیں

ابھی سے دل و جاں سر راہ رکھ دو
کہ لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں

ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی
نگاہیں چرانے کے دن آ رہے ہیں

صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں

چلو فیضؔ پھر سے کہیں دل لگائیں
سنا ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں