نشہ شوق ہے فزوں شب کو ابھی سحر نہ کر
دیکھ حدیث دلبراں اتنی بھی مختصر نہ کر
سارا حساب جان و دل رکھا ہے تیرے سامنے
چاہے تو دے اماں مجھے چاہے تو درگزر نہ کر
اپنوں سے ہار جیت کا کیسے کرے گا فیصلہ
اے مرے دل ٹھہر ذرا یہ جو مہم ہے سر نہ کر
اس کا یہ حسن وہم ہے تیرا یہ عشق ہے گماں
اتنا یقین دل مرے وہم و گمان پر نہ کر
ہجرت نو کا مسئلہ بڑھتے قدم نہ روک لے
سو مری جاں سفر میں رہ دار فنا میں گھر نہ کر
اتنا تو وقت دے کبھی خود سے کروں مکالمہ
اے مری عمر تیز رو ایسے مجھے بسر نہ کر
میری اڑان ہے مرے رب کریم کی عطا
یوں مرے ضد میں منتشر اپنے یہ بال و پر نہ کر

غزل
نشہ شوق ہے فزوں شب کو ابھی سحر نہ کر
مجید اختر