EN हिंदी
نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں | شیح شیری
nashsha-e-mai ke siwa kitne nashe aur bhi hain

غزل

نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں
کچھ بہانے مرے جینے کے لیے اور بھی ہیں

ٹھنڈی ٹھنڈی سی مگر غم سے ہے بھرپور ہوا
کئی بادل مری آنکھوں سے پرے اور بھی ہیں

عشق رسوا ترے ہر داغ فروزاں کی قسم
میرے سینے میں کئی زخم ہرے اور بھی ہیں

زندگی آج تلک جیسے گزاری ہے نہ پوچھ
زندگی ہے تو ابھی کتنے مزے اور بھی ہیں

ہجر تو ہجر تھا اب دیکھیے کیا بیتے گی
اس کی قربت میں کئی درد نئے اور بھی ہیں

رات تو خیر کسی طرح سے کٹ جائے گی
رات کے بعد کئی کوس کڑے اور بھی ہیں

غم دوراں مرے بازوئے شکستہ سے نہ کھیل
مشغلے میری جوانی کے لیے اور بھی ہیں

وادئ غم میں مجھے دیر تک آواز نہ دے
وادئ غم کے سوا میرے پتے اور بھی ہیں