نشاط نو کی طلب ہے نہ تازہ غم کا جگر
سکوں گرفتہ کو کیسے ہو زیر و بم کا جگر
اگرچہ تشنہ نگاہی مثال صحرا ہے
نہیں ہے دست دعا کو ترے کرم کا جگر
جگر کو عشق نے فولاد کر دیا ہے جب
نہیں رہا ہے ستم کار کو ستم کا جگر
ہے اضطراب جگر لہر لہر پر بھاری
کہاں ہے بحر کو اس طرح پیچ و خم کا جگر
یہ کام توپ تپنچے کے دائرے کا نہیں
فتوح فکر و نظر تو ہے بس قلم کا جگر
ہمارے ماتھے میں رکھ دی ہے داس کی سی سرشت
اسے خدا نے دیا ہے کسی صنم کا جگر
ہماری چاہ میں روئی ہے زندگی اتنا
کہ پانی پانی ہوا جا رہا ہے سم کا جگر
جگر کا دم ہے کہ گرد زمیں سے ٹوٹتا ہے
اگرچہ توڑ نہ پایا فلک بھی دم کا جگر
بس اعظمؔ آج تو حد ہی خمار نے کر دی
کہیں سے گھول کے لے آؤ طیر رم کا جگر

غزل
نشاط نو کی طلب ہے نہ تازہ غم کا جگر
اکرام اعظم