نشاط درد کے موسم میں گر نمی کم ہے
فضا کے برگ شفق پر بھی تازگی کم ہے
سراب بن کے خلاؤں میں گم نظارۂ سمت
مجھے لگا کہ خلاؤں میں روشنی کم ہے
عجیب لوگ ہیں کانٹوں پہ پھول رکھتے ہیں
یہ جانتے ہوئے ان میں مقدری کم ہے
نہ کوئی خواب نہ یادوں کا بیکراں سا ہجوم
اداس رات کے خیمے میں دل کشی کم ہے
میں اپنے آپ میں بکھرا ہوا ہوں مدت سے
اگر میں خود کو سمیٹوں تو زندگی کم ہے
کھلی چھتوں پہ دوپٹے ہوا میں اڑتے نہیں
تمہارے شہر میں کیا آسمان بھی کم ہے
پرانی سوچ کو سمجھیں تو کوئی بات بنے
جدید فکر میں احساس نغمگی کم ہے
کہاں سے لاؤ گے اے رندؔ معتبر مضمون
غزل میں جبکہ روایت کی چاشنی کم ہے
غزل
نشاط درد کے موسم میں گر نمی کم ہے
پی.پی سری واستو رند