EN हिंदी
نسب یہ ہے کہ وہ دشمن کو کم نسب نہ کہے | شیح شیری
nasab ye hai ki wo dushman ko kam-nasab na kahe

غزل

نسب یہ ہے کہ وہ دشمن کو کم نسب نہ کہے

شہپر رسول

;

نسب یہ ہے کہ وہ دشمن کو کم نسب نہ کہے
عجب یہ ہے کہ یہ دنیا اسے عجب نہ کہے

مری نگاہ جنوں میں یہ بات بھول گئی
کہ کب کہے مرے جذبات اور کب نہ کہے

وہ برہمی کی جو اک داستاں تھی ختم ہوئی
اسے کہو کہ وہ اس سے وہ بات اب نہ کہے

وہ بے زبان نہیں ہے تو کم نظر ہوگا
جو چشم و لب ترے دیکھے مگر غضب نہ کہے

اسے بھی ہے مرے جینے کی آرزو شہپرؔ
سکون ہے کہ یہ اشعار بے سبب نہ کہے