نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے
وہ دور عشق تھا کہ بڑے معرکے ہوئے
اتنا تو تھا کہ وہ بھی مسافر نواز تھے
مجنوں کے ساتھ تھے جو بگولے لگے ہوئے
آئی ہے اس سے پچھلے پہر گفتگو کی یاد
وہ خلوت وصال وہ پردے چھٹے ہوئے
کیوں ہم نفس چلا ہے تو ان کے سراغ میں
جس عشق بے غرض کے نشاں ہیں مٹے ہوئے
یہ مے کدہ ہے اس میں کوئی قحط مے نہیں
چلتے رہیں گے چند سبو دم کیے ہوئے
کل شب سے کچھ خیال مجھے بت کدے کا ہے
سنتا ہوں اک چراغ جلا رت جگے ہوئے
میری وفا ہے اس کی اداسی کا ایک باب
مدت ہوئی ہے جس سے مجھے اب ملے ہوئے
اللہ رے فیض بادہ پرستان پیش رو
نکلے زمیں سے شیشۂ مے کچھ دبے ہوئے
میں بھی تو ایک صبح کا تارہ ہوں تیز رو
آپ اپنی روشنی میں اکیلے چلے ہوئے
غزل
نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے
عزیز حامد مدنی