نقش پا اس کے راستہ اس کا
مڑ کے دیکھا تو کچھ نہ تھا اس کا
مبتلا کر گیا عذابوں میں
ایک کمزور فیصلہ اس کا
اختیارات کم نہ تھے میرے
میں نے چاہا نہیں برا اس کا
کام تو اور ہی کسی کا تھا
نام بد نام ہو گیا اس کا
لوگ جس زہر سے ہلاک ہوئے
کتنا میٹھا تھا ذائقہ اس کا
جو مری ہار پر بہت خوش تھا
اب ہے خود سے مقابلہ اس کا
راہ کی ظلمتوں سے منزل تک
اک اجالا ہے حوصلہ اس کا
کون جانے وہ کیوں بھٹکتا رہا
اس کو تو یاد تھا پتا اس کا
اس کے قاتل بڑی عقیدت سے
پوجتے ہیں مجسمہ اس کا
توڑ کر مجھ سے رشتۂ امید
کتنا نقصان ہو گیا اس کا
غلطی ہو گئی سمجھنے میں
چاہتا تھا میں فائدہ اس کا
غزل
نقش پا اس کے راستہ اس کا
نصرت گوالیاری