EN हिंदी
نقش دل پر کیسی کیسی صورتوں کا رہ گیا | شیح شیری
naqsh dil par kaisi kaisi suraton ka rah gaya

غزل

نقش دل پر کیسی کیسی صورتوں کا رہ گیا

مظفر وارثی

;

نقش دل پر کیسی کیسی صورتوں کا رہ گیا
کتنی لہریں ہم سفر تھیں پھر بھی پیاسا رہ گیا

کیسی کیسی خواہشیں مجھ سے جدا ہوتی گئیں
کس قدر آباد تھا اور کتنا تنہا رہ گیا

ڈھونڈنے نکلا تھا آوازوں کی بستی میں اسے
سوچ کر ویراں گزر گاہوں پہ بیٹھا رہ گیا

اس سے ملنا یاد ہے مل کر بچھڑنا یاد ہے
کیا بتا سکتا ہوں کیا جاتا رہا کیا رہ گیا

میں یہ کہتا ہوں کہ ہر رخ سے بسر کی زندگی
زندگی کہتی ہے ہر پہلو ادھورا رہ گیا

عہد رفتہ کی کھدائی کس قدر مہنگی پڑی
جس جگہ اونچی عمارت تھی گڑھا سا رہ گیا

صرف اتنی ہے مظفرؔ اپنی روداد حیات
میں زمانے کو زمانہ مجھ کو تکتا رہ گیا