نقش بر آب ہو گیا ہوں میں
کتنا کم یاب ہو گیا ہوں میں
جھریاں کہہ رہی ہیں چہرے کی
خشک تالاب ہو گیا ہوں میں
کیا کروں گا میں اب خوشی لے کر
غم سے سیراب ہو گیا ہوں میں
یاد رکھتا نہیں مجھے کوئی
عرصۂ خواب ہو گیا ہوں میں
اس قدر بار غم اٹھایا ہے
جھک کے محراب ہو گیا ہوں میں
اک مسیحا کی مہربانی سے
جام زہراب ہو گیا ہوں میں
خشک آنسو ہوئے ہیں جس دن سے
دشت بے آب ہو گیا ہوں میں
ہے یہ احسان جبر دنیا کا
سخت اعصاب ہو گیا ہوں میں
اس نے جس دن سے چھو لیا مجھ کو
رشک مہتاب ہو گیا ہوں میں
خود ہی اعجازؔ اپنا دشمن ہوں
صرف احباب ہو گیا ہوں میں
غزل
نقش بر آب ہو گیا ہوں میں
اعجاز رحمانی