نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
گھٹا میں چاند آیا جا رہا ہے
زمانے کی نگاہوں میں سمو کر
مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے
کہاں کا جام جب یاں ذوق مستی
نگاہوں سے پلایا جا رہا ہے
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے
پلا کر پھر شراب حسن و جلوہ
مجھے بے خود بنایا جا رہا ہے
سلامت آپ کا جور مسلسل
مرے دل کو دکھایا جا رہا ہے
شکیبؔ اب وہ تصور میں نہ آئیں
کلیجہ منہ کو آیا جا رہا ہے
غزل
نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
شکیب جلالی