نقاب چہرے سے میرے ہٹا رہی ہے غزل
حصار ذات سے باہر بلا رہی ہے غزل
یہ کون ہے جو بہت بے قرار ہے مجھ میں
یہ کس کے قرب میں یوں کسمسا رہی ہے غزل
وہ خول جس میں مقید ہوں ٹوٹنے کو ہے
مجھے بہار کا مژدہ سنا رہی ہے غزل
وجود کا ہوا جاتا ہے فلسفہ پانی
رموز ذات سے پردے اٹھا رہی ہے غزل
جو معترض تھے ہوئے وہ بھی معترف اس کے
ہر ایک دور میں جادو نما رہی ہے غزل
سہا ہے خود پہ ہر اک تیر طنز کا ہنس کر
پیا ہے زہر مگر مسکرا رہی ہے غزل
ہے قدردان کو اپنے یہ وجہ سرشاری
یہ حاسدوں کے دلوں کو جلا رہی ہے غزل
کہ صرف گل ہی نہیں خار سے بھی نسبت ہے
یہ اور بات کہ باد صبا رہی ہے غزل
کرے ہے اس پہ ریاضت کہ اس کا حسن کھلے
عبیدؔ کے لیے مثل حنا رہی ہے غزل
تھا ایک شغل مرا میری یہ غزل گوئی
عبیدؔ ذات کو اب اپنی بھا رہی ہے غزل
غزل
نقاب چہرے سے میرے ہٹا رہی ہے غزل
عبید الرحمان