ننگے پاؤں کی آہٹ تھی یا نرم ہوا کا جھونکا تھا
پچھلے پہر کے سناٹے میں دل دیوانہ چونکا تھا
پانچوں حواس کی بزم سجا کر اس کی یاد میں بیٹھے تھے
ہم سے پوچھو شب جدائی کب کب پتا کھڑکا تھا
اور بھی تھے اس کی محفل میں باتیں سب سے ہوتی تھیں
سب کی آنکھ بچا کر اس نے ہم کو تنہا دیکھا تھا
دنیا تو دنیا ہی ٹھہری رنگ بدلتی رہتی ہے
دکھ تو یہ ہے دھیان کسی کا گھٹتا بڑھتا سایا تھا
کیسا شکوہ کیسی شکایت دل میں یہی سوچو جاویدؔ
تم ہی گئے تھے اس کی گلی میں وہ کب تم تک آیا تھا
غزل
ننگے پاؤں کی آہٹ تھی یا نرم ہوا کا جھونکا تھا
عبد اللہ جاوید