ننگ نہیں مجھ کو تڑپنے سے سنبھل جانے کا
ڈر ہے اس خنجر مژگاں کے پھسل جانے کا
نبض زنجیر کے ہلنے سے چھٹے ہے عاشق
بو الہوس کہوے ہوا شوق نکل جانے کا
گرچہ وہ رشک چمن مجھ سے ہے باغی لیکن
آتش گل سے ہے خوف اس کے کمہل جانے کا
تلخ لگتا ہے اسے شہر کی بستی کا سواد
ذوق ہے جس کو بیاباں کے نکل جانے کا
جوں صبا خانقہوں میں جو کبھو جاتا ہوں
قصد ہے غنچہ عماموں کے کچل جانے کا
غزل
ننگ نہیں مجھ کو تڑپنے سے سنبھل جانے کا
ولی عزلت