نخل ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا میں تو مارا گیا
عرش سے فرش پر کیوں اتارا گیا میں تو مارا گیا
جو پڑھا تھا کتابوں میں وہ اور تھا زندگی اور ہے
میرا ایمان سارے کا سارا گیا میں تو مارا گیا
غم گلے پڑ گیا زندگی بجھ گئی عقل جاتی رہی
عشق کے کھیل میں کیا تمہارا گیا میں تو مارا گیا
مجھ کو گھیرا ہے طوفان نے اس قدر کچھ نہ آئے نظر
میری کشتی گئی یا کنارہ گیا میں تو مارا گیا
مجھ کو تو ہی بتا دست و بازو مرے کھو گئے ہیں کہاں
اے محبت مرا ہر سہارا گیا میں تو مارا گیا
عشق چلتا بنا شاعری ہو چکی مے میسر نہیں
میں تو مارا گیا میں تو مارا گیا میں تو مارا گیا
مدعی بارگاہ محبت میں فرتاشؔ تھے اور بھی
میرا ہی نام لیکن پکارا گیا میں تو مارا گیا

غزل
نخل ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا میں تو مارا گیا
فرتاش سید