نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق
زمانہ کھول رہا ہے سخنوری کا ورق
محبتوں کے حسیں باب سے ذرا آگے
کتاب زیست میں ملتا ہے گمرہی کا ورق
سنہری ساعتیں منسوب ہیں ترے غم سے
پلٹ کے دیکھ ذرا میری زندگی کا ورق
کتاب وقت کی آندھی میں کھل گئی شاید
ہوا میں اڑ گیا دیرینہ دوستی کا ورق
تلاوتوں میں ہیں مصروف طائران سحر
افق نے کھولا ہے کرنوں کی روشنی کا ورق
ملے ہیں آج سخن میرے سب خطوں کے جواب
جو میرے ہاتھ لگا اس کی ڈائری کا ورق
غزل
نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق
عبد الوہاب سخن