نئی بہار کا تھا منتظر چمن میرا
جو اس کا لمس ملا کھل اٹھا بدن میرا
خبر نہیں مری تنہائیوں میں رات گئے
نہ جانے کون بھگوتا ہے پیرہن میرا
مرے وجود کو چھو لے مجھے مکمل کر
ترے بغیر ادھورا ہے بانکپن میرا
ہر اک محاذ پہ مجھ کو شکست دی اس نے
اگرچہ چار سو لشکر تھا خیمہ زن میرا
اب اس کے سامنے جاؤں تو خاک اڑتی ہے
وہ دن گئے کہ تھا آئینہ ہم سخن میرا
غزل
نئی بہار کا تھا منتظر چمن میرا
شبنم وحید