نہیں یہ رسم محبت کہ اشتباہ کرو
کیا ہے عشق تو ہر حال میں نباہ کرو
نہیں ہے عشق تو پھر زندگی میں کچھ بھی نہیں
کسی سے عشق کرو اور بے پناہ کرو
کروں گا میں تری محفل کی رونقیں دو چند
میری طرف بھی اگر لطف کی نگاہ کرو
سنا ہے سیر چمن کو وہ آ رہے ہیں آج
جنون شوق کو بر وقت انتباہ کرو
شعار حسن کی توقیر کا تقاضا ہے
مریض عشق سے تجدید رسم و راہ کرو
مری طرح نہ رہو عالم تخیل میں
مری طرح نہ بھری زندگی تباہ کرو
اگر مقام ہے مطلوب بزم الفت میں
غم فراق کی شدت میں ضبط آہ کرو
جہاں میں رسم ستم ننگ آدمیت ہے
ستم کے دور کی ہر چیز کو تباہ کرو
نماز دید کے انجام پر مجھے دل کا
یہ مشورہ ہے کہ اب طوف جلوہ گاہ کرو
جناب شیخ کو دیکھا ہے میں نے خلوت میں
اگر یہی ہے شرافت تو پھر گناہ کرو
شعار مکر و ریا مولوی سے مت سیکھو
نہ اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کرو
غزل
نہیں یہ رسم محبت کہ اشتباہ کرو
زاہد چوہدری