نہیں یہ فکر کوئی رہبر کامل نہیں ملتا
کوئی دنیا میں مانوس مزاج دل نہیں ملتا
کبھی ساحل پہ رہ کر شوق طوفانوں سے ٹکرائیں
کبھی طوفاں میں رہ کر فکر ہے ساحل نہیں ملتا
یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے
یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا
شکستہ پا کو مژدہ خستگان راہ کو مژدہ
کہ رہبر کو سراغ جادۂ منزل نہیں ملتا
وہاں کتنوں کو تخت و تاج کا ارماں ہے کیا کہیے
جہاں سائل کو اکثر کاسۂ سائل نہیں ملتا
یہ قتل عام اور بے اذن قتل عام کیا کہئے
یہ بسمل کیسے بسمل ہیں جنہیں قاتل نہیں ملتا
غزل
نہیں یہ فکر کوئی رہبر کامل نہیں ملتا
اسرار الحق مجاز