EN हिंदी
نہیں تم مانتے میرا کہا جی | شیح شیری
nahin tum mante mera kaha ji

غزل

نہیں تم مانتے میرا کہا جی

تاباں عبد الحی

;

نہیں تم مانتے میرا کہا جی
کبھی تو ہم بھی سمجھیں گے بھلا جی

اچنبھا ہے مجھے بلبل کہ گل بن
قفس میں کس طرح تیرا لگا جی

تمہارے خط کے آنے کی خبر سن
میاں صاحب نپٹ میرا کڑھا جی

زکوٰۃ حسن دے میں بے نوا ہوں
یہی ہے تم سے اب میری صدا جی

کسی کے جی کے تئیں لیتا ہے دشمن
مرا تو لے گیا ہے آشنا جی

تھکا میں سیر کر سارے جہاں کی
مرا اب سب طرف سے مر گیا جی

جلایا آ کے پھر تاباںؔ کو تو نے
ہماری جان اب تو بھی سدا جی