نہیں تھا کوئی ستارا ترے برابر بھی
ہوا غروب ترے ساتھ تیرا منظر بھی
پگھلتے دیکھ رہے تھے زمیں پہ شعلے کو
رواں تھا آنکھ سے اشکوں کا اک سمندر بھی
کہیں وہ لفظ میں زندہ کہیں وہ یادوں میں
وہ بجھ چکا ہے مگر ہے ابھی منور بھی
عجب گھلاوٹیں شہد و نمک کی نطق میں تھی
وہی سخن کہ تھا مرہم بھی اور نشتر بھی
منافقوں کی بڑی فوج اس سے ڈرتی تھی
اور اس کے پاس نہ تھا کوئی لاؤ لشکر بھی
غزل
نہیں تھا کوئی ستارا ترے برابر بھی
منظور ہاشمی