نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی
غزل
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
فیض احمد فیض