نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
مکاں ڈھونڈ آئے اس کا لا مکاں تک
بنا ہر موئے تن خار مغیلاں
ستایا جوش وحشت نے یہاں تک
ہماری جان کے پیچھے پڑا ہے
دل ناداں کو سمجھائیں کہاں تک
رواں شب کو ہوا کیا ناقۂ روح
نظر آئی نہ گرد کارواں تک
زمیں پہ زلزلہ آیا تو پہنچا
مرے نالوں کا غوغا آسماں تک
ملے ہے دل کو ذوق بوسۂ لب
مزا ہے ورنہ ہر شے کا زباں تک
جو رکھتے تھے دماغ اپنا فلک پر
زمیں پر اب نہیں ان کا نشاں تک
جلایا شمع سا اس شعلہ رو نے
گئے گھل سوز غم سے استخواں تک
جہاں کی سیر کی سیاحؔ ہم نے
نہ پہنچے پر سخن کے قدرداں تک
غزل
نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
میاں داد خاں سیاح