نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا
ذرا تیرے سکوں سے ڈر رہا تھا
اچانک جھینپ کر ہنسنے لگا میں
بہت رونے کی کوشش کر رہا تھا
بھنور میں پھر ہمیں کچھ مشغلے تھے
وہ بیچارہ تو ساحل پر رہا تھا
لرزتے کانپتے ہاتھوں سے بوڑھا
چلم میں پھر کوئی دکھ بھر رہا تھا
اچانک لو اٹھی اور جل گیا میں
بجھی کرنوں کو یکجا کر رہا تھا
گلہ کیا تھا اگر سب ساتھ ہوتے
وہ بس تنہا سفر سے ڈر رہا تھا
غلط تھا روکنا اشکوں کو یوں بھی
کہ بنیادوں میں پانی مر رہا تھا
غزل
نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا
شارق کیفی