EN हिंदी
نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے | شیح شیری
nahin malum jine ka hunar kaisa rakha hai

غزل

نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے

سعدیہ صفدر سعدی

;

نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے
ہمیں حالات نے جیسے رکھا زندہ رکھا ہے

مری پاگل طبیعت کا ہے کوئی پیر نہ سر
نہیں دریا ملا تو آنکھ میں صحرا رکھا ہے

تمہیں جس سمت سے آنا ہوا بے خوف آنا
تمہارے واسطے چاروں طرف رستہ رکھا ہے

مرے جیسی اداسی شہر میں کس کو ملی ہے
مرا جیسا کسی نے کب بجھا چہرہ رکھا ہے

وہ جتنے بھیس بدلے میں اسے پہچان لوں گی
کہ میں نے آنکھ میں اس شخص کا نقشہ رکھا ہے

تمہارے وصل کی افطاری آئے یا نہ آئے
مگر میں نے تمہارے ہجر کا روزہ رکھا ہے

کسی کے ہجر میں بھولی ہوں باقی رنگ سارے
مری الماری میں ہر سوٹ اب کالا رکھا ہے