نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے
ہمیں حالات نے جیسے رکھا زندہ رکھا ہے
مری پاگل طبیعت کا ہے کوئی پیر نہ سر
نہیں دریا ملا تو آنکھ میں صحرا رکھا ہے
تمہیں جس سمت سے آنا ہوا بے خوف آنا
تمہارے واسطے چاروں طرف رستہ رکھا ہے
مرے جیسی اداسی شہر میں کس کو ملی ہے
مرا جیسا کسی نے کب بجھا چہرہ رکھا ہے
وہ جتنے بھیس بدلے میں اسے پہچان لوں گی
کہ میں نے آنکھ میں اس شخص کا نقشہ رکھا ہے
تمہارے وصل کی افطاری آئے یا نہ آئے
مگر میں نے تمہارے ہجر کا روزہ رکھا ہے
کسی کے ہجر میں بھولی ہوں باقی رنگ سارے
مری الماری میں ہر سوٹ اب کالا رکھا ہے

غزل
نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے
سعدیہ صفدر سعدی