EN हिंदी
نہیں کچھ اور تو ممکن تھی خودکشی پھر بھی | شیح شیری
nahin kuchh aur to mumkin thi KHud-kushi phir bhi

غزل

نہیں کچھ اور تو ممکن تھی خودکشی پھر بھی

مقیم احسان کلیمؔ

;

نہیں کچھ اور تو ممکن تھی خودکشی پھر بھی
ہے کوئی بات کہ جیتا ہے آدمی پھر بھی

یہ تیرگی تو بس اک گردش زمیں تک ہے
مگر یہ رات جو ہم سے نہ کٹ سکی پھر بھی

چمن لٹا ہے خود اہل چمن کی سازش سے
کلی کلی ہے مگر محو خواب سی پھر بھی

کسی کو پا کے بھی اکثر گماں یہ ہوتا ہے
کہ جیسے رہ گئی باقی کوئی کمی پھر بھی

ہمیں پہ یورش ظلمت ہمیں ہیں کشتۂ شب
ہمیں ہیں پیش رو صبح و روشنی پھر بھی