EN हिंदी
نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں | شیح شیری
nahin ki tere ishaare nahin samajhta hun

غزل

نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں

ظفر اقبال

;

نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں
سمجھ تو لیتا ہوں سارے نہیں سمجھتا ہوں

ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے
ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں

کدھر سے نکلا ہے یہ چاند کچھ نہیں معلوم
کہاں کے ہیں یہ ستارے نہیں سمجھتا ہوں

کہیں کہیں مجھے اپنی خبر نہیں ملتی
کہیں کہیں ترے بارے نہیں سمجھتا ہوں

جو دائیں بائیں بھی ہیں اور آگے پیچھے بھی
انہیں میں اب بھی تمہارے نہیں سمجھتا ہوں

خود اپنے دل سے یہی اختلاف ہے میرا
کہ میں غموں کو غبارے نہیں سمجھتا ہوں

کبھی تو ہوتا ہے میری سمجھ سے باہر ہی
کبھی میں شرم کے مارے نہیں سمجھتا ہوں

کہیں تو ہیں جو مرے خواب دیکھتے ہیں ظفرؔ
کوئی تو ہیں جنہیں پیارے نہیں سمجھتا ہوں